Islam

حج کی فرضیت اور اسکی اقسام

حج کا لغوی و اصطلاحی معنی

حج کے لغوی معنی ہیں عظمت والی جگہ کا ارادہ کرنا،جبکہ حج کی شرعی تعریف “مخصوص مقامات کا مخصوص فعل کے ساتھ مخصوص زمانے میں ارادہ کرنا”ہے۔

لفظ “حج” ح کی فتح ( حَجْ ) اور کسرہ (حِجْ )دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ۔مثلاً سورة البقرة، آیت197 : ( اَلْحَجُّ اَشْھُرٌمَّعْلُوْمَاتٌ) میں ح کی فتح کے ساتھ اور سورہٴ آلِ عمران ‘آیت 97: ﴿ وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ﴾ میں ح کے کسرہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔

مسلمان ہر اسلامی سال کے بارہویں مہینے یعنی ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ کو سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت انجام دیتے ہیں، اس مجموعہ عبادات کو اسلامی اصطلاح میں حج اور ان انجام دی جانے والی عبادات کو مناسِک حج کہتے ہیں

حج کس پر فرض ہے:

دین اسلام میں حج ہر صاحب استطاعت بالغ مسلمان پر زندگی بھر میں ایک مرتبہ فرض ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: “وَلِلَّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلًا وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِین” ترجمہ: اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہےجو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے اور جو انکار کرے تو اللہ سارے جہاں سے بے پرواہ ہے۔ (سورۃ آل عمران، آیت:۹۷)
زندگی میں ایک بار صاحب استطاعت پر حج فرض ہے اور اس کے بعد جتنے بھی حج کیے جائیں گے ان کا شمار نفل حج میں ہوگا؛حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ” لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، چناں چہ حج ادا کرو “، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا : “یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! کیا ہر مسلمان پر ہر سال حج فرض ہے؟” تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاموش ہو گئے، دوبارہ سہ بارہ یہی سوال کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ” اگر میں ہاں کہہ دیتا تو واقعی فرض ہوجاتا اور ایسا تم لوگ نہیں کرپاتے “، پھر فرمایا ” جتنا میں کہوں اتنا سنو، اس سے آگے نہ پوچھو”
حج ہجرت کے نویں سال فرض ہوا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سنہ 10ھ میں واحد حج کیا جسے حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ اس حج میں حج کے تمام مناسک کو درست طور پر کر کے دکھایا اور اعلان کیا کہ: خذوا عني مناسككم ترجمہ: اپنے مناسک حج مجھ سے لے لو۔ نیز اسی حج کے دوران اپنا مشہور خطبہ حجۃ الوداع بھی دیا اور اس میں دین اسلام کی جملہ اساسیات و قواعد اور اس کی تکمیل کا اعلان کیا۔

حج کے فرض ہونے کی شرائط

حج کےفرض ہونے کے لیے آٹھ شرائط ہيں جب تک وہ تمام شرائط نہ پائی جائیں حج فرض نہیں ہوتا۔
1. اسلام: حج صرف اور صرف مسلمان ہی ادا کر سکتا ہے۔
2. بلوغت: حج صرف بالغ پر فرض ہوتا ہے، نابالغ اگر صاحب مال ہے تب بھی بالغ ہونے پر ہی حج فرض ہو گا۔
3. عقل: صرف عاقل پر ہی حج فرض ہوتا ہے، مجنون پر نہیں۔
4. آزاد: غلام یا باندی پر حج فرض نہيں اور اگر وہ حج كرے تو اسے نفلی حج شمار کیا جائے گا۔
5. بدنی استطاعت : بدن سلامت ہو، نابینا، اپاہج، فالج زدہ یا ایسا بوڑھا جو خود سے چل نا سکتا ہو، سواری پر خود سے بیٹھ نا سکتا ہو، اس پر حج فرض نہیں۔
6. مالی استطاعت : ذاتی طور پر اتنا مال دار ہو کہ آنے اور جانے کے اخراجات پورے کر سکے اور یہ مال اس کی عام ضروریات سے زائد ہو۔
7. دار الحرب : گر دارالحرب میں ہو اور باقی شرائط پوری ہوں اور اسے اس بات کا علم ہو کہ حج اسلام میں ایک فرض ہے، تو اس پر تب ہی حج فرض ہو گا، اگر اس تک اسلام کی یہ تعلیم نا پہنچ سکی تھی، تو حج فرض نہیں۔
8. وقت: مندرجہ بالا شرائط حج کے مہینے میں ہی پوری ہوں تب ہی حج فرض ہو گا۔ اگر حج کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے غریب ہو گيا، مر گیا، اپاہج ہو گیا تو اس پر حج فرض نہیں رہا۔

 حج کی اقسام

حج کی تین اقسام ہیں؛ 1) حج قِران 2) حج تَمتُّع 3) حج اِفراد

:حج قِران

قِران(ق کے کسرہ /زیرکے ساتھ) کے لغوی معنی ہیں دو چیزوں کوباہم ملادینا، دوچیزوں کو اکٹھا کرنا، جب کہ شرعی اصطلاح میں عمرہ اور حج دونوں کی نیت سے احرام باندھنا اور ایک ہی احرام کے ساتھ پہلے عمرہ اورپھر حج اداکرنا اور درمیان میں احرام نہ کھولنا حج قِران کہلاتا ہے۔
حج قِران سب سے افض حج ہے، قِران کرنے والا حاجی “قارِن” کہلاتا ہے، حج قران یہ ہے کہ میقات سے جب احرام باندھا جائے اس میں عمرہ اور حج دونوں کی نیت کی جائے اس میں حج اور عمرہ ایک ہی احرام میں اکٹھے ادا کیے جائیں گے مگر عمرہ کرنے کے بعد قارِن حلق یا قصر نہیں کروا سکتا اسے بدستور احرام میں رہنا ہو گا۔ دسویں، گیارہویں یا بارہویں ذوالحج کو قربانی کرنے کے بعد حلق یا قصر کروا کے احرام کھول سکتا ہے۔

:حج تَمتُّع

تَمتُّع کے لغوی معنی ہیں، نفع اٹھانا، جب کہ شرعی اصطلاح میں عازمِ حج کا میقات سے پہلے عمرہ کی نیت سے احرام باندھنا اورعمرہ کے افعال ومناسک ادا کر نے کے بعد احرام کھول دینا اور پھر اسی سال حج کے دنوں میں حج کی نیت سے دوبارہ احرام باندھنا اور مناسک حج ادا کرنا، حج تَمتُّع کہلاتاہے۔
یہ حج صرف میقات کے باہر والے ہی ادا کر سکتے ہیں۔ اس میں حاجی عمرہ ادا کرنے اور حلق یا قصر کرنے کے بعد احرام کھول سکتے ہیں۔ جسے وہ پھر ایام حج یعنی 8 ذوالحج یا اس سے قبل حج کا اِحرام باندھا جاتا ہے۔ حج تَمتُّع کرنے والے کو “مُتَمَتِّع”کہا جاتا ہے۔

:حج اِفراد

اِفراد کے لغوی معنی ہیں، اکیلااور تنہا، جب کہ شرعی اصطلاح میں صرف حج کی نیت سے احرام باندھ کر حج کے افعال و مناسک ادا کرنا اور عمرہ ساتھ نہ ملانا ، حج اِفراد کہلاتا ہے۔
اس حج میں عمرہ شامل نہیں ہے۔ اس میں صرف حج کا احرام باندھا جاتاہے۔ اہل مکہ اور حل یعنی میقات اور حدود حرم کے درمیان میں رہنے والے باشندے حج افراد کرتے ہیں(دوسرے ملک سے آنے والے بھی حج افراد کر سکتے ہیں)۔ حج افراد کرنے والے حاجی کو “مفرِد” کہتے ہیں۔

Show More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button