
روزہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، جو مسلمانوں پر فرض ہے۔ روزے کے دوران بھوک اور پیاس کا احساس ہونا معمول کی بات ہے، اور یہ روزے کی آزمائش کا حصہ ہے۔ تاہم، بعض اوقات پیاس کی شدت اس قدر بڑھ سکتی ہے کہ روزہ جاری رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس مضمون میں ہم پیاس کی وجہ سے روزہ چھوڑنے کے احکام اور شرعی رہنمائی پر روشنی ڈالیں گے۔
روزے میں پیاس کا احساس اور اس کی شدت
عام طور پر روزے کے دوران بھوک اور پیاس کا احساس ہوتا ہے، اور مشقت والے کام کرنے کی وجہ سے پیاس کی شدت میں اضافہ اور کمزوری زیادہ ہو سکتی ہے۔ اگر پیاس کی وجہ سے کمزوری قابلِ برداشت ہو اور محنت و مشقت والے کام سے تکلیف بڑھ جاتی ہو، تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ روزہ رکھا جائے اور روزے کے دوران کوئی ایسا مشقت والا کام نہ کیا جائے جس سے پیاس کی شدت میں اضافہ ہو اور روزہ پورا کرنا مشکل ہو۔
شدید پیاس کی صورت میں روزہ چھوڑنے کا حکم
اگر پیاس کی شدت اس حد تک پہنچ جائے کہ روزہ دار کی جان کو خطرہ لاحق ہو یا صحت کو سنگین نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، تو ایسی صورت میں روزہ توڑنے کی اجازت ہے۔ اسلامی شریعت میں انسانی جان کی حفاظت کو اہمیت دی گئی ہے، اور ایسی حالت میں روزہ توڑنا جائز ہے۔ تاہم، بعد میں اس روزے کی قضا کرنا واجب ہوگی۔
بیماری کی وجہ سے روزہ چھوڑنا اور فدیہ کا مسئلہ
اگر کسی شخص کو ایسی بیماری لاحق ہو جس کی وجہ سے روزہ رکھنا ممکن نہ ہو، اور صحت یابی کی امید بھی نہ ہو، تو ایسے شخص کے لیے روزوں کا فدیہ دینا جائز ہے۔ فدیہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ تاہم، اگر بعد میں صحت بحال ہو جائے اور روزہ رکھنے کی استطاعت پیدا ہو جائے، تو فدیہ نفل صدقہ شمار ہوگا اور قضا روزے رکھنا لازم ہوگا۔
نتیجہ
روزے کے دوران پیاس کا احساس ایک معمول کی بات ہے، اور پیاس کی وجہ سے روزے چھوڑنا جائز نہیں ہے۔ البتہ، اگر پیاس کی شدت جان یا صحت کے لیے خطرہ بن جائے، تو روزہ توڑنے کی اجازت ہے، اور بعد میں اس کی قضا واجب ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ روزے کے دوران اپنی صحت کا خیال رکھیں اور مشقت والے کاموں سے پرہیز کریں تاکہ پیاس کی شدت میں اضافہ نہ ہو۔